Sunday, 30 July 2017

Brief history of pashtoon poeples

The Pashtun word derived from Hebrew which means Jew. There are two main races and blood lines who are even called the Semitic blood line in the Torah, Bible, and Quran. These two genetic blood lines are The Bani Israel and Arabs. In the era of Rabbi Akvia, a great Jewish sage of Prophet Daniel era pleaded for Hashem to redeem his people by assisting them so that they can liberate Jerusalem from the Greeks clutches. Here is the most romantic, blessed and victorious chapter emerges in the history of Jewish religion The Maccabees Jewish priestly family who successfully revolted against the Greek king Antiochus 6th and liberated Jerusalem but also constructed Jewish Temple. This priestly, venerated, lionheart, a religious community of Jews were the Pashtuns. Pashtun Jews brutally defended their religion bravely and with courage. They were the most special among the Jews. When Islam emerged in Arab lands under the leadership of Prophet Muhammed it is thought that 99 % Pashtun embraced Islam, this was a disaster for Judaism because they had lost their most important community that's why to this day Bani Israeli Jews never forgot The Pashtuns. After that Pashtun during the reign of the second Khalifa came to what is known today Pakistan and Afghanistan. Pakistan was reconstructed by Pashtun Yousufzai during the era of 1700. The first and most real people of Pakistan are Pashtun that's why it would be right to say that Pashtun is the real and native Pakistani. These Pashtun after getting Pakistan in 1947 under the leadership of Ayub Khan, Yahya Khan, and almost 99 % of ISI chief who are Pashtun made Pakistan undefeatable, unbreakable and unshakeable. They made Pakistan a nuclear state under the charismatic Pashtun ISI General boss General Akhtar Abdurrahman. Even today Pakistan Army 90 % officers and generals are Pashtun they are real command who made the decisions and strategies for Pakistan. They are the Maccabees and Muslim bani Israeli. Other Pakistani are fortunate to have people like Pashtun otherwise today Pakistani Punjabi brother and Sindh, Baluchi brothers would be livings under the inhuman regime of Hindu extremist thanks to benevolent and venerated Pashtun. Pashtun is today proud Pakistani and led the country towards prosperity and perfection in defense. 



Saturday, 22 July 2017

ایک شخص گوشت کو فریز کرنے والے کارخانہ میں کام کرتا تھا



                                                   ایک شخص گوشت کو فریز کرنے والے کارخانہ میں کام کرتا تھا
ایک دفعہ کارخانہ بند ھونے سے پہلے اکیلا گوشت کو فریز کرنے والے حصہ میں چکر لگانے گیا تو غلطی سے دروازہ بند ھو گیا اور وہ اندر برف والے حصے میں پھنس گیا
چُھٹی کا وقت تھا اور سب کام کرنے والے لوگ گھروں کو جا رھے تھے کوئی بھی متوجہ نہ ھوا کہ وہ اندر پھنس گیا ھے
وہ سمجھ گیا کہ دو یا تین گھنٹوں بعد اس کا بدن برف بن جائے گا۔ اب جب موت یقینی نظر آنے لگی تو خدا کو یاد کرنے لگا اپنے گناہوں کی معافی چاہی اور خدا سے کہا کہ اے یونس کو مچھلی کے پیٹ اور یوسف کو جیل سے نجات دینے والے اگر میں نے زندگی میں کوئی ایک کام بھی فقط تیری خشنودی کیلئے انجام دیا ہےتو اس کے صدقے مجھے اس قید سے رہائی عطاء فرما , وعدہ کرتا ھوں اسکو مرتے دم تک انجام دیتا رہوں گا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے
ایک یا دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اچانک سردخانے کا دروازہ کھلا، چوکیدار بھاگتا ھوا آیا اور اس شخص کو اٹھا کر باھر نکالا اور گرم ہیٹر کے پاس لے آیا
جب اس کی حالت کچھ بہتر ھوئی تو اس نے چوکیدار سے پوچھا تم کیسے وھاں آئے ؟
چوکیدار بولا کہ جناب مجھے 20 سال ھو چکے ھیں اس کارخانہ میں کام کرتے ھوئے، ھر روز سینکڑوں مزدور اور آفیسر کارخانہ میں آتے اور جاتے ھیں
لیکن تم ان چند افراد میں سے ھو جو جب بھی کارخانہ میں داخل ھوتے ھو تو مجھے مسکرا کر سلام کرتے اور احوال پرسی کرتے ھو اور نکلتے ھوئے آپ کا خدا حافظ کرنا میری سارے دن کی تھکاوٹ دور کر دیتا ھے
جب کہ اکثر لوگ میرے پاس سے یوں گزر جاتے ھیں کہ جیسے میں ھوں ہی نہیں, جبکہ تم وہ شخص ھو جس کے نزدیک میرا بھی کوئی وجود ھے
آج بھی گذشتہ دنوں کی طرح میں نے آپ کا سلام تو سنا لیکن خداحافظ کہنے کیلئے منتظر رہا, جب زیادہ دیر ھو گئی تو میں آپ کو تلاش کرنے چل پڑا کہ
کہیں آپ کسی مشکل میں گرفتار نہ ہو گئے ھوں 
وہ شخص حیران ھو گیا کہ کسی کو سلام کرنے اور خدا حافظ کہنے جیسے چھوٹے سے کام کیوجہ سے آج اسکی جان بچ گئی ھے ...

Sunday, 9 July 2017

کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار-----

Gadhe ki kahani
کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا؛ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہمسائے نے کہا؛ اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیئے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔
کسان نے گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویسا کھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔
کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی افتاد آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سے جا کر کہا؛ بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام تو جاتا رہا ہے، اب کیا کروں؟
ہمسائے نے پوچھا؛ آج کام پر جانے سے پہلے کیا تو نے پہلے اس کی گردن سے رسی کھولی تھی؟
کسان نے حیرت سے کہا: کونسی رسی؟ میں نے تو بس رسی باندھنے کی اداکاری کی تھی، اصل رسی تھوڑا باندھی تھی؟
ہمسائے نے کہا؛ ہاں تیرے نقطہ نظر سے تو رسی نہیں ہے، مگر گدھے کے حساب سے تو رسی بندھی ہوئی ہے ناں!
کسان نے واپس جا کر گدھے کی گردن سے اور بعد میں کھونٹے سے رسی کھولنے کی اداکاری کی، اس بار گدھا بغیر کسی مزاحمت کے مالک کا کہنا مانتے ہوئے کام پر چلا گیا۔
گدھے کے اس رویئے پر ہنسنے کی ضروت نہیں ہے، ہم خود کئی بار اپنی عادات، تقالید اور رسم و رواج کے غلام ہوتے ہیں، خاص طور پر کئی وہمی اعقتادات کے غلام۔
ہمیں بھی کئی بار اس بات کی سخت ضرورت ہوتی ہے کہ اُن خفیہ اور غیر مرئی رسیوں کو تلاش کریں جو ہماری گردن کو اپنے شکینجے میں جکڑے ہمیں آگے بڑھنے سے روکے رہتی ہیں۔

سب سے گزارش ھے کہ اسے ایک دفعہ لازمی پڑھیں شکریہ تحریر تو پتہ نہیں کس کی ہے لیکن سیدھی دل پہ لگی.... ضرور پڑھیئے


جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے  
پورے خرچ ہو جاتے تب امّاں ہمارا پسندیدہ پکوان تیار کرتیں۔ ترکیب یہ تھی کہ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے کپڑے کے پرانے تھیلے میں جمع ہوتے رہتے اور مہینے کے آخری دنوں میں ان ٹکڑوں کی قسمت کھلتی۔ پانی میں بھگو کر نرم کر کے ان کے ساتھ ایک دو مٹھی بچی ہوئی دالیں سل بٹے پر پسے مصالحے کے ساتھ دیگچی میں ڈال کر پکنے چھوڑ دیا جاتا۔ حتیٰ کہ مزے دار حلیم سا بن جاتا اور ہم سب بچے وہ حلیم انگلیاں چاٹ کر ختم 
کر جاتے۔ امّاں کے لیے صرف دیگچی کی تہہ میں لگے کچھ ٹکڑے ہی بچتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ کھرچن کامزہ 
تم لوگ کیا جانو۔
اور امّاں ایسی سگھڑ تھیں کہ ایک دن گوبھی پکتی اور اگلے دن اسی گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی بنتی اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا کہ گوبھی زیادہ مزے کی تھی یا اس کے ڈنٹھلوں کی سبزی۔

امّاں جب بھی بازار جاتیں تو غفور درزی کی دکان کے کونے میں پڑی کترنوں کی پوٹلی بنا کے لے آتیں۔ کچھ عرصے بعد یہ کترنیں تکئے کے نئے غلافوں میں بھر دی جاتیں۔ کیونکہ امّاں کے بقول ایک تو مہنگی روئی خریدو اور پھر روئی کے تکیوں میں جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں۔ اور پھر کترنوں سے بھرے تکیوں پر امّاں رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں۔ کبھی لاڈ آجاتا تو ہنستے ہوئے کہتیں ’تم شہزادے شہزادیوں کے تو نخرے ہی نہیں سماتے جی، سوتے بھی شاعری پر سر رکھ کے ہو۔‘

عید کے موقع پر محلے بھر کے بچے غفور درزی سے کپڑے سلواتے۔ ہم ضد کرتے تو امّاں کہتیں وہ تو مجبوری میں سلواتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کسی کو سینا پرونا نہیں آتا۔ میں تو اپنے شہزادے شہزادیوں کے لیے ہاتھ سے کپڑے سیئوں گی۔ جمعۃ الوداع کے مبارک دن ابّا لٹھے اور پھول دار چھینٹ کے دو آدھے آدھے تھان جانے کہاں سے خرید کر گھر لاتے۔ لٹھے کے تھان میں سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے اور چھینٹ کے تھان میں سے دونوں لڑکیوں اور امّاں کے جوڑے کٹتے اور پھر امّاں ہم سب کو سلانے کے بعد صحری تک آپا نصیبن کے دیوار ملے کوارٹر سے لائی گئی سلائی مشین پر سب کے جوڑے سیتیں۔
آپا نصیبن سال کے سال اس شرط پر مشین دیتیں کہ ان کا اور ان کے میاں کا جوڑا بھی امّاں سی کے دیں گی۔ ہم بہن بھائی جب ذرا ذرا سیانے ہوئے تو ہمیں عجیب سا لگنے لگا کہ محلے کے باقی بچے بچیاں تو نئے نئے رنگوں کے الگ الگ چمکیلے سے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہمارے گھر میں سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔ مگر امّاں کے اس جواب سے ہم مطمئن ہوجاتے کہ ایک سے کپڑے پہننے سے کنبے میں محبت قائم رہتی ہے۔ اور پھر ایسے چٹک مٹک کپڑے بنانے کا آخر کیا فائدہ جنھیں تم عید کے بعد استعمال ہی نہ کر سکو۔
چھوٹی عید یوں بھی واحد تہوار تھا جس پر سب بچوں کو ابّا ایک ایک روپے کا چاند تارے والا بڑا سکہ دیتے تھے۔ اس کے انتظار اور خرچ کرنے کی منصوبہ بندی میں چاند رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی۔ صبح صبح نماز کے بعد ہم بچوں کی شاپنگ شروع ہوجاتی۔ سب سے پہلے ہر بہن بھائی کوڈو کے ٹھیلے سے ایک ایک پنی والی گول عینک خریدتا جسے پہن کر چال میں اتراہٹ سی آجاتی۔ پھر سب کے سب چاندی کے ورق لگی میٹھی املی اس لالچ میں خریدتے کہ رفیق افیمچی ہر ایک کو املی دیتے ہوئے تیلی جلا کر املی میں سے شعلہ نکالے گا۔
پھر خانہ بدوشوں کے خوانچے میں بھرے مٹی کے کھلونوں اور رنگین کاغذ اور بانس کی لچکدار تیلیوں سے بنے گھگو گھوڑے کی باری آتی۔ آخر میں بس اتنے پیسے بچتے کہ سوڈے کی بوتل آ سکے۔ چنانچہ ایک بوتل خرید کر ہم پانچوں بہن بھائی اس میں سے باری باری ایک ایک گھونٹ لیتے اور نظریں گاڑے رہتے کہ کہیں کوئی بڑا گھونٹ نہ بھر جائے۔
پیسے ختم ہونے کے بعد ہم دوسرے بچوں کو پٹھان کی چھرے والی بندوق سے رنگین اور مہین کاغذ سے منڈھے چوبی کھانچے پر لگے غبارے پھوڑتے بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ بندر یا ریچھ کا تماشا بھی اکثر مفت ہاتھ آ جاتا اور اوپر نیچے جانے والے گول چوبی جھولے میں بیٹھنے سے تو ہم سب بہن بھائی ڈرتے تھے اور اس کا ٹکٹ بھی مہنگا تھا۔
بقر عید پر سب کے ہاں قربانی ہوتی سوائے ہمارے۔ مگر یہاں بھی امّاں کی منطق دل کو لگتی کہ جو لوگ کسی وجہ سے دنیا میں قربانی نہیں کر سکتے ان کے بکرے اللہ میاں اوپر جمع کرتا رہتا ہے۔ جب ہم اوپر جائیں گے تو ایک ساتھ سب جانور قربان کریں گے، انشااللہ!
ایک دفعہ گڑیا نے پوچھا کہ امّاں کیا ہم جلدی اوپر نہیں جاسکتے؟ ہر سوال پر مطمئن کر دینے والی امّاں چپ سی ہوگئیں اور ہمیں صحن میں چھوڑ کر اکلوتے کمرے میں چلی گئیں۔ ہم بچوں نے پہلی بار کمرے سے سسکیوں کی آوازیں آتی سنیں مگر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر گڑیا کی بات پر رونے کی کیا بات تھی۔
کوئی چھ سات ماہ بعد ایک دن امّاں باورچی خانے میں کام کرتے کرتے گر پڑیں۔ ابّا نوکری پر تھے اور ہم سب سکول میں۔گھر آ کر پتہ چلا کہ آپا نصیبن امّاں کی چیخ سن کر دوڑی دوڑی آئیں اور پھر گلی کے نکڑ پر بیٹھنے والے ڈاکٹر محسن کو بلا لائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امّاں کا دل اچانک ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
تدفین کے بعد ایک روز گڑیا نے میرا بازو زور سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پڑی کہ خود تو اوپر جا کر اگلی عید پر اکیلے اکیلے بکرے کاٹیں گی اور ہمیں یہیں چھوڑ گئیں۔

بھیڑیوں نے بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ بکریوں کو آزادی....اس پوسٹ کو ضرور پڑھی

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

بھیڑیوں نے بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ بکریوں کو آزادی دو بکریوں کے حقوق مارے جا رہے ہیں انہیں گھروں میں قید کر رکھا گیا ہے ایک بکری نے جب یہ آواز سنی تو دوسری بکریوں سے کہا کہ سنو سنو ہمارے حق میں جلوس نکالے جا رہے ہیں چلو ہم بھی نکلتے ہیں اور اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں
ایک بوڑھی بکری بولی بیٹی ہوش کے ناخن لو یہ بھیڑئے ہمارے دشمن ہیں ان کی باتوں میں مت آو
مگر نوجوان بکریوں نے اس کی بات نہ مانی کہ جی آپ کا زمانہ اور تھا یہ جدید دور ہے اب کوئی کسی کے حقوق نہیں چھین سکتا یہ بھیڑئے ہمارے دشمن کیسے یہ تو ہمارے حقوق کی بات کر رہے ہیں
بوڑھی بکری سن کر بولی بیٹا یہ تمہیں برباد کرنا چاہتے ہیں ابھی تم محفوظ ہو اگر ان کی باتوں میں آگئی تو یہ تمہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے
بوڑھی بکری کی یہ بات سن کر جوان بکری غصے میں آگئی اور کہنے لگی کہ اماں تم تو بوڑھی ہوچکی اب ہمیں ہماری زندگی جینے دو تمہیں کیا پتہ آزادی کیا ہوتی ہے باہر خوبصورت کھیت ہونگے ہرے بھرے باغ ہونگے ہر طرف ہریالی ہوگی خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی تم اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو اب ہم مزید یہ قید برداشت نہیں کرسکتیں یہ کہ کر سب آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگیں اور بھوک ہڑتال کردی ریوڑ کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو مجبورا انہیں کھول کر آزاد کردیا بکریاں بہت خوش ہوئیں اور نعرے لگاتی چھلانگیں مارتی نکل بھاگیں
مگر یہ کیا؟؟؟؟ بھیڑئیوں نے تو ان پر حملہ کردیا اور معصوم بکریوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا
آج عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے درحقیقت عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہ رہے ہیں یہ ان معصوموں کے خون کے پیاسے ہیں .انہیں عورتوں کے حقوق کی نہیں اپنی غلیظ پیاس کی فکر ہے کاش کہ کوئی سمجھے

ايک بچے نے سمندر ميں اپنا جوتا کھو ديا تو بلکتے ہوئے بچے نے سمندر کے ساحل پر لکھ ديا کہ......

 ايک بچے نے سمندر ميں اپنا جوتا کھو ديا تو بلکتے ہوئے بچے نے سمندر کے ساحل پر لکھ ديا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ يہ

 سمندر چور ہےاور کچھ ہی فاصلے پر ايک شکاری نے سمندر ميں جال پھينکا 

اور بہت سی مچھليوں کا شکار کيا ۔ تو خوشی کے عالم ميں اسنے

 ساحل پرلکھ ديا کہ سخاوت کيلئے اسی سمندر کی مثال دی جاتی ہے ۔۔۔۔ا

ے بحرِ سخاوت ! سخاوت تم سے اور تم سخاوت سے ہو ۔نو

جوان غوطہ خور نے سمندر ميں غوطہ لگايا اور وہ

 اسکا آخری غوطہ ثابت ہوا ۔ کنارے پر بيٹھی غمزدہ ماں نے ريت پر ٹپکتے ہوئے

 آنسوں کيساتھ لکھ ديا۔۔۔۔۔۔۔۔يہ سمندر قاتل ہے..ايک بوڑھے شخص کو سمندر

 نے قیمتی موتی کا تحفہ ديا تو ۔۔ اسنے فرحت جذبات ميں آکر ساحل سمندر پر لکھ ديا۔۔۔۔۔ 

کہ يہ سمند کريم اور سخی ہے ۔ کرامت اس سے يہ اور يہ کرامت کی مثال ہے ۔

پھر ايک بہت بڑی لہر آئی اور اسنے سب کا لکھا ہوا مٹا ديا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کی باتوں پر سر مت دھرو ہر شخص وہ کہتا ہے جہاں سے وہ ديکھتا ہے ۔ ۔۔خطاؤں اور غلطيوں کو مٹا دو تاکہ دوستی اور بھائی چارگی چلتی رہے ۔۔۔ کبھی کسی کی خطا کی وجہ سے دوستی اور بھائی چارگی مت مٹلاؤ۔۔۔جب تمہارے ساتھ برا 

سلوک کيا جائے جواب ميں اس سے بدتر کا مت سوچو بالکہ نيکی کی نيت کر لو ۔۔۔۔

کيونکہ قرآن ميں رب العزت فرماتے ہيں ۔۔۔۔

۔۔بھلائی اور برائی کبھی برابر 

.نہيں ہوسکتی اور برائی کو اچھے طريقے سے دور کر دو 

Welcome to poetryform.com

About Us

Urdu Love Poetry is a verse stage where Urdu poetry is added regularly for people. We provide love poetry, sentimental verse, Urdu Shayari, lyrics, and ghazals. We also provide poetry's in two lines, four lines, romantic poetry, Ghazal and poem, amazing and interesting stories. We additionally offer you to add your latest poetry service.

LOVE POETRY URDU VERSION

KISI NAZAR KO TERA INTIZAT......SAD POETRIES


poetryform
                      kisi Nazar ko Tera Entizaar Aaj Bee Hy

SAD POETRY FOR TRUE LOVERS URDU

KASH WOH KABHI AAKAR HAMSE..........URDU POETRY VERSION

urdu sad dtory